ہم پا بہ گِل نہیں تھے نباتات کی طرح
آزادہ رَو تھے خواب و خیالات کی طرح
خاک ایک دن میں خاک سے سونا نہیں ہوئی
سو مرحلوں سے گزری ہے کچ دھات کی طرح
ڈھل جاتے ہیں اُسی میں جو سانچہ میسر آئے
شاید ہمارے ذہن ہیں مائعات کی طرح
یہ آگ اپنی اَصل میں باطل نہ ہو کہیں
دل پر اثر ہے جس کا طلسمات کی طرح
لے لی نئے غموں نے پرانے غموں کی جا
جسموں میں بنتے ٹوٹتے خلیات کی طرح
تاروں کے ساتھ گنتا ہوں پاؤں کے آبلے
تجھ بن سفر بھی کٹتا نہیں رات کی طرح
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...